بیوی کو مارنے کے شروط و ضوابط

بیوی کو مارنے کے شروط و ضوابط

سوال یہ کہ کیا شوہر بیوی کو مار سکتا ہے ؟ اس کے شروط و ضوابط کیا ہیں؟ 

گھریلو تشدد اور نشوزیت کی بناء پر بیوی کی بدتمیزی و شرکشی، مسلسل بد زبانی و بد کرداری کی وجہ سے ہاتھ اٹھانے حکم ہے ، حد میں رہتے ہوئے اسے مارنا اسلام میں جائز ہے ، بیوی کو مارنے کا حکم عام نہیں ہے کہ جب چاہے پیٹ دے ، نہیں! بلکہ بیوی کو مارنے کا حق اسی شوہر کو حاصل جو اپنی بیوی کے پورے پورے حقوق أدا کرے ورنہ بیوی کو اس کے حقوق ادا کئے بغیر بلا وجہ شرعی خوامخواہ زد و کوب کرنا قطعاً جائز نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے " واضربوهن"  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "واضربوهن ضربًا غير مبرِّح"۔
کیا شوہر کا بیوی کو مارنا جائز ہے

 فقہاء نے بیوی کو مارنے کے عدم جواز پر اتفاق کیا ہے، شوہر پر واجب ہے کہ بیوی کے ساتھ نرمی اور محبت وألفت سے، حسن سلوکی سے ، معروف و احسان کے ساتھ معاشرتی زندگی گزارے اللہ تعالی کا فرمان ہے ( وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ) ترجمه : ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بود و باش رکھو ، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو، اور اللہ تعالی اس میں بہت ہی بھلائی کر دے۔ 

 لیکن ہاں ؛ شوہر کے لئے بیوی کو اس کی نشوزیت کی وجہ سے مارنا جائز ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے (وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ واضربوهن) ترجمہ: اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف هو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ چھوڑ، اور انھیں مار کی سزا دو ۔

 لیکن یہ حکم عام نہیں ہے بلکہ اس کے لئے کئے قیود ، شروط اور ضوابط ہیں ، حنابلہ کے مذہب کے مطابق بیویوں کو مارنے کا حکم سات شروط کے ساتھ مقید ہے۔

وہ شروط اور ضوابط مندرجہ ذیل ہیں: 

1- مارنے کی سزا دینے کا حق اسی شوہر کو ہے جو اس (بیوی) کے حقوق ادا کرے، اس شخص کے لئے مارنا جائز نہیں ہے جو بیوی کی حقوق ادا نہ کرے ۔

2- مارنے کی سزا تیسرے نمبر پر ہے سب سے پہلے وعظ و نصیحت کا نمبر ہے ، دوسرے نمبر پر ان سے وقتی اور عارضی طور پر علیحدگی اختیار کرنا ہے، اس سے بھی نہ سمجھے تو بالأخیر ہلکی سی مارکی اجازت ہے۔

 3- مارنے کے شرعی تقاضوں کا تحقق و وجود ، پس جب نشوزیت یقینی اور حقیقی طور پر پائے جائے اور ثابت ہوجائے تب ضرب جائز ہے ورنہ اس کے وہم سے یا عدم وجود سے ضرب نہیں لگائی جائیگی۔

4- مارنے کا باعث وجہ اور سبب اسے ادب سکھلانا ہو ، نا کہ عذاب دینا ، ہلاک کرنا اور رسوائی کرنا ہو۔ 

 5- ضرب غیر مبرح ہو یعنی مار بہت زیادہ اور شدید نہ ہو بلکہ ایسی مار ہو کہ عام طور پر انسانی نفس برداشت کر سکے ۔

6- ضرب کا عدد دس سے زائد نہ ہو۔ یعنی حد میں رہ کر زیادہ سے زیادہ دس تھپڑ ، لاٹھی یا کوڑے برسا سکتا ہے ، اس سے زیادہ نہیں۔ 

7- چہرے ، پیٹ اور مستحسن جگہ سے اجتناب کرے، نیز اس جگہ پر ضرب نہ لگائے جس سے موت ہلاک اور فساد کا خدشہ ہو۔ 

[خلاصة من دروس الشیخ صالح العصیمی ]

أحدث أقدم