حج کی فرضیت کے شروط
فرضت حج کی شرطیں |
ترجمہ : دین اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالی ہی معبود برحق ہے اور محمد صلی الللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، نمازقائم کرنا ، زکاۃ ادا کرنا ، حج بیت اللہ کرنا ، اور
رمضان المبارک کے ۔ روزے رکھنا ۔
٭ اور حج زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ہر اس مرد و عورت پر فرض ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ و تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " ایھا الناس ، قد فرض اللہ علیکم الحج فحجوا " ۔ ترجمہ اے لوگو اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا تم حج کرو
یہ سن کر ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ہرسال فرض ہے ؟
آپ ﷺ نے خاموشی اختیار کی حتی کہ اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا ۔ پھر آپﷺ نے فرمایا " لو قلت نعم ، لوجبت ، و لما استطعتم " مسلم 1337 ۔
یہ سن کر ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ہرسال فرض ہے ؟
آپ ﷺ نے خاموشی اختیار کی حتی کہ اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا ۔ پھر آپﷺ نے فرمایا " لو قلت نعم ، لوجبت ، و لما استطعتم " مسلم 1337 ۔
فرضیت حج کی پانچ شرطیں ہیں
: نمبر 1 اسلام
یعنی صرف مسلمان پر حج فرض ہوتا ہے کافر پر فرض نہیں ہوتا اور اگر کافر حالت کفر میں حج کر لے تو وہ کافی نہیں ہوگا کیونکہ حج سے پہلے اس کا مسلمان ہونا ضروری ہے لہذا اسلام قبول کرنے کے بعد اگر وہ صاحب استطاعت ہیں تو دوسرا حج فرض ہوگا اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہٗ کو یمن روانہ کیا تو فرمایا " إنك تأتي قوما من أهل الكتاب فادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فترد في فقرائهم فإن هم أطاعوا لذلك فإياك وكرائم أموالهم واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينها وبين الله حجاب " البخاری 1496 ، مسلم 19۔
ترجمہ : تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو اس لئے تم انہیں سب سے پہلے اس بات کی طرف دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں ۔۔۔آگاہ کرنا کے اللہ تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) ۔
ترجمہ : تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو اس لئے تم انہیں سب سے پہلے اس بات کی طرف دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں ۔۔۔آگاہ کرنا کے اللہ تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنا ضروری ہے اور دوسرے واجبات دین کا رتبہ اس کے بعد ہے
نمبر 2 عقل
یعنی حج عاقل اور باشعور مسلمان پر ہی فرض ہوتا ہے مجنون پر نہیں کیونکہ مجنون کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرفوع القلم (غیر مکلف) قرار دیا ہے ۔
: نمبر 3 بلوغت
فرضیت حج کے لیے بلوغت شرط ہے کیونکہ نابالغ بچہ مکلف نہیں ہودففسددعسوستا البتہ نابالغ بچہ حج کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنا ایک بچہ بلند کیا اور کہا اے اللہ کے رسول کیا یہ حج کر سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( نعم ، و لک اجر ) ہاں اور تمہیں بھی اجر ملے گا مسلم 36 13 لیکن اس کا یہ حج فرض حج سے کفایت نہیں کرے گا بالغ ہونے کے بعد اگر وہ مستطیع ہو تو اسے فرض حج دوبارہ کرنا پڑے گا ۔
یعنی حج عاقل اور باشعور مسلمان پر ہی فرض ہوتا ہے مجنون پر نہیں کیونکہ مجنون کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرفوع القلم (غیر مکلف) قرار دیا ہے ۔
: نمبر 3 بلوغت
فرضیت حج کے لیے بلوغت شرط ہے کیونکہ نابالغ بچہ مکلف نہیں ہودففسددعسوستا البتہ نابالغ بچہ حج کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنا ایک بچہ بلند کیا اور کہا اے اللہ کے رسول کیا یہ حج کر سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( نعم ، و لک اجر ) ہاں اور تمہیں بھی اجر ملے گا مسلم 36 13 لیکن اس کا یہ حج فرض حج سے کفایت نہیں کرے گا بالغ ہونے کے بعد اگر وہ مستطیع ہو تو اسے فرض حج دوبارہ کرنا پڑے گا ۔
: نمبر 4 آزادی
یعنی حج آزاد مسلمان پر ہی فرض ہوتا ہے غلام پر نہیں البتہ غلام حج کر سکتا ہے لیکن یہ حج فرض حج سے کفایت نہیں کرے گا اور اسے آزاد ہونے کے بعد بھی بحالت استطاعت فرض حج دوبارہ کرنا پڑے گا
: نمبر5 استطاعت
یعنی وہ حج کرنے کی قدرت رکھتا ہوں مالی طور پر حج کے اخراجات اٹھا سکتا ہو، اور جسمانی طور پر سفر حج کے قابل ہو ، راستہ پرامن ہو ، اور قدرت حاصل کرنے کے بعد حج کے ایام تک مکہ مکرمہ میں پہنچنا اس کے لئے ممکن ہو فرمان الہی ہے ( و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ) آل عمران : 97 ترجمہ : حج بیت اللہ کرنا ان لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو اسکی طرف جانے کی طاقت رکھتے ہوں۔
اور جب رسول اللہ صلی اللہ وسلم سےاستطاعت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ( الزاد و الراحلۃ ) یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس زاد راہ اور سواری موجود ہو ۔ یا سواری کا کرایہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو ، ابن ماجہ صحیح الترغیب والترھیب للالبانی 31 11
یعنی وہ حج کرنے کی قدرت رکھتا ہوں مالی طور پر حج کے اخراجات اٹھا سکتا ہو، اور جسمانی طور پر سفر حج کے قابل ہو ، راستہ پرامن ہو ، اور قدرت حاصل کرنے کے بعد حج کے ایام تک مکہ مکرمہ میں پہنچنا اس کے لئے ممکن ہو فرمان الہی ہے ( و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ) آل عمران : 97 ترجمہ : حج بیت اللہ کرنا ان لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو اسکی طرف جانے کی طاقت رکھتے ہوں۔
اور جب رسول اللہ صلی اللہ وسلم سےاستطاعت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ( الزاد و الراحلۃ ) یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس زاد راہ اور سواری موجود ہو ۔ یا سواری کا کرایہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو ، ابن ماجہ صحیح الترغیب والترھیب للالبانی 31 11
٭ اور اگر کوئی شخص مالی طاقت تو رکھتا ہو لیکن جسمانی طور پر سفر حج کے قابل نہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانب سے کسی ایسے شخص کو حج کرائے جو پہلے اپنی طرف سے فریضہ حج ادا کرچکا ہو. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے حجۃ الوداع میں خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی اور کہنے لگی اے اللہ کے رسول میرے باپ پر حج فرض ہوچکا ہے لیکن وہ بہت بوڑھا ہے اور سواری پر بیٹھنے کے قابل نہیں ہے تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں ؟؟
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( نعم ، حجی عنہ ) ہاں تم اس کی طرف سے حج کر لو ۔ بخاری 15 13 مسلم 34 13