امام ابو جعفرالطحاویؒ کی مفصل سوانح حیات
رحلہ اور طلب علم :
جب امام الطحاوی ؒ سن فہم و بلوغت کو پہونچے ، تو طلب علم کے لئے مصر - (جو کہ اس وقت علوم دینیہ کا مرکز وگہوارہ اور علماؤں کا مجمع تھا) - کی طرف رخت سفر باندھ کر منتقل ہوگئے ۔ اوروہاں کےمختلف شہروں میں مقیم علماء ، اور باہر سے تشریف لانے والے علماء بارعین سے اسفادہ کیے ۔ بالخصوص اپنے ماموں اسماعیل بن یحییٰ المزنی - ( جو کہ امام شافعی کے ساتھیوں میں سب سے زیادہ فقیہ تھے ) - کے پاس علم حاصل کرنےلگے ۔یہاں تک کہ آپ بالغ نظرعالم بن گئے ۔ اسی طرح آپ سن دوسواٹسٹھ /268ھ میں مختلف اسلامی علاقوں جیسے شام ، بیت المقدس ،عسقلان غزہ وغیرہ میں مسلسل دو سال کی طویل سفر کر کے اجلہء علماء کے علمی سرمایہ سے مستفید ہوتے رہے بالخصوص شام میں قاضی القضاۃ ابو حازم سے فقہ اور حدیث میں پختگی حاصل کی ۔ اس طرح امام الطحاوی کی مسلسل جدو جہد کی وجہ سے ، خصوصا آپ کی طبیعت کی روانی اور ذہانت و فطانت کی وجہ آپ کو مسائل کی تحقیق و تدقیق میں ایک ملکہ ذوق پیدا ہوگیا ۔
شافعیت سے حنفیت :
امام الطحاوی شافعی مسلک کے تھے ،لیکن علوم دینیہ میں مہارت کے بعد مسلک حنفیت کوترجیح دیتے ۔اس سلسلہ میں کئ ذمہ دار علماؤں نے بھی افسانہ طرازیاں کر کے بے سروپاباتیں کہہ ڈالیں ، مگر انصاف و تحقیق کے پلڑے کو سنبھال کر رکھیں تو بات وہی درست ہے جو انہوں نے خود بیان فرمائ ہے جو محمد بن احمد شروطی ؒ کی زبانی سے خود امام الطحاوی نے واضح کیا ہے وہ یہ ھیکہ " میں نے ماموں سے جب فقہ حاصل کرنا شروع کی تو کئ گوشوں میں تشنگی رہ جاتی اور سوال پر ناراض ہوتے اور تشنگی کا ازالہ مزنی نہ کر سکتے ۔ پھر انھوں نے علامہ مذنی کو پایا کہ جن سوالالت کا جواب وہ فقہ شافعی رحمہ اللہ سے نہ دے سکتے تو فقہ حنفی کا مطالعہ کر کے اس کا جواب کبھی تو امام شافعی کے خلاف اور کبھی قریب قریب دیتے ۔ چنا نچہ اس راز کو معلوم کرنے کے بعد انہوں نے براہ راست فقہ حنفی کا مطالعہ شروع کیا اور اس کے ماہرین سے استفادہ کیا تو ان کو گوہر مراد ہاتھ آگیا اسی وجہ سے دلائل کی روشنی میں مسلک شافعی کو ترک کر کے حنفیت کو اختیارکر لیا ۔
اساتذہ :
امام الطحاوی ؒ نے بہت سے شیوخ و اساتذہ سے استفادہ کیا ۔ جن کی تعداد تین سو /300سے زائد ہیں ۔ جیسا کہ آپ کے اساتذہ اور شیوخ کے تعلق سے کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں ۔لیکن ان میں سے علوم کے خاص چشمے کے اسماء جن سے آپ نے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔
اسماعیل بن یحییٰ مزنی مصری المتوفیٰ264ھ
ابوجعفر احمد بن ابی عمران البغدادی المتوفیٰ 280ھ
علامہ محدث ابوبکرہ بکار بن قتیبہ قاضی القضاۃبمصرالمتوفیٰ 270
قاضی القضاۃ ابو حازم عبد الحمید بن عبد العزیز البصری الشامی المتوفیٰ292ھ
ابو عبید علی بن الحسین بغدادی شافعیالمتوفیٰ319
ابو عبد الرحمن ااحمد بن شعیب النسائیالمتوفیٰ303ھ
شیخ الاسلام ابو موسی یونس بن عبد الاعلی المصری المتوفیٰ264ھ
ابو محمد الربیع بن سلیمان المرادی المصری المتوفیٰ 270ھ
ابو زرعہ عبد الرحمان بن عمرو الدمشقی المتوفیٰ281ھ
ابو اسحاق ابراہیم بن ابی داؤد الکوفی المتوفیٰ270
العلامہ ہارون بن سعید الایلی
العلامہ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم
الشیخ بحر بن نضر الخولانی
العلامہ عیسیٰ بن مثرود
العلامہ عبد الغنی بن رفاعہ
یونس بن عبد الاعلیٰ الصدفی
سلیمان بن شعیب الکیسانی
محمد بن سلامہ
ابراہیم بن منقذ
مقداد بن داؤد الرعینی
محمد بن عقیل الفریانی
یزید بن سنان البصری
احمد بن عبد اللہ البرقی وغیرہ وغیرہ
آپ کے زمانہ کے محدثین کرام:
1/ امام احمد بن حنبل ؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرچھ/6 سال تھی
2/ امام محمد بن اسماعیل البخاریؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرسترہ/17 سال تھی
3/ امام مسلم بن الحجاجؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرچوبیس /24 سال تھی
4/ محمد بن یزید ابن ماجہ ؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرچوتیس /34 سال تھی
5/ سلیمان بن اشعث ابوداؤدؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرسینتس/37 سال تھی
6/محمد بن عیسیٰ الترمذی ؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرچالیس/40 سال تھی
7/ احمد بن شعیب النسائی ؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرچونسٹھ/64 سال تھی
تلامذہ :
1)۔احمد بن ابراہیم بن حماد۔
2)۔احمد بن محمد بن منصور الانصاری الدامغانی۔
3)۔عبدالرحمن بن احمد بن یونس المورح۔
4)۔سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی ابو القاسم صاحب المعاجم۔
5)۔عبداللہ بن عدی بن عبداللہ الجرجانی ابو احمد صاحب کتاب الکامل فی الجرح والتعدیل،علی بن احمدالطحاوی۔
6)۔عبیداللہ بن علی الدایودی ابوالقاسم شیخ اہل الظاہر فی عصرہ، محمد بن عبد اللہ بن احمد بن زیر ابو سلیمان الحافظ۔
7)۔محمد بن جعفر بن الحسین البغدادی المعروف بغندر الحافظ المفید تصنیفات :
تصنیفات :۔
1) ۔اختلاف العلماء ۔
2) ۔ بیان السنۃ والجماعۃ فی العقیدۃ۔
3)۔حکم اراضی مکۃ المکرمۃ۔
4)۔شرح الجا مع الصغیر و الکبیرللشیا نی فی الفروع۔
5)۔الفرائض ۔
6)۔ کتاب التاریخ۔
7)۔عقود المرجان فی منا قب ابی حنیفۃ النعمان ۔
8)۔قسمۃالفئ و الغنائم۔
9)۔کتاب التسویۃ بین حد ثنا واخبرنا۔
10)۔الشروط الکبیر۔
11) ۔الشروط الصغیعر۔
12)۔المختصر فی الفروع۔
13)۔مشکل الاثار۔
14) ۔المحا ضرات والسجلات۔
15)۔شرح معانی الاثار۔
16)۔اختلاف الروایات علی مذہب الکوفین ۔
17)۔نقد المدلسین علی الکرابیسی۔
کنیت : ابو جعفر
سن وِلادت : (238ھ) 239ھ/853م
سن وفات : 321ھ/933م
نسب نامہ : احمد بن محمد بن سلامۃ بن سلمۃ بن عمران بن عمرو بن مزیقیاء بن عامر ماءالسماء بن حارثہ الغطریف بن امرئ القیس بن ثعلبہ بن مازن بن الازد بن الغوث بن نبت بن مالک بن زید بن کھلان بن سباء بن یشجب بن یعرب بن قحطان ۔
سن ولادت : امام الطحاوی کی سن ولادت کے تعلق سے کئی اقوال ہیں ۔
1) امام طحاوی خود فرماتے ہیں کہ" میری پیدائش دوسوانتالیس/239ھ کو بمطابق 853م میں ہوئی
2) 237ھ یہ امام ذہبی کا قول ہے ۔
موضع وِلادت اورنِسبت :
امام طحاوی رحمہ اللہ "طحا" نامی ایک بستی میں پیدا ہوئے جو مصر کی وادی ِنیل کے قریب واقع ہے۔اس جگہ کی نسبت سے آپ وِلادتاً "الطحاوی "سے منسوب ہے ۔اور چونکہ آپ کے جد اعلیٰ "ازد بن عمران"یمن کا تھا اور اسی کے نام سے اس کا قبیلہ "ازدی"سے معروف تھا اس لئے امام الطحاوی نسباً " الازدی "سے منسوب کئے جاتے ہیں ۔ بعد میں انھوں نے یمن کو ترک کرکے مصر کی سرسبزو شاداب زمین کو اپنا وطن بنالیا تھا ۔ اس لئے آپ " مصری " کہلاتے ہیں ۔
ابتدائی تعلیم : امام الطحاوی کے والدین ، دونوں علم وادب سے بے انتہاء شغف رکھتے تھے ۔ اس طور پر کہ آپ کے والد ادب اور شاعری میں بلند مقام رکھتے تھے ، اور آپ کی والدہ جو کہ امام المزنی کی بہن ، فقیہۃ اور عالمہ تھی ، اس وجہ سے امام الطحاوی کی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے علمی گھرانے سے ہی ہوچکی تھی ۔آپ اسی کم سنی کی عمر میں ابو جعفر احمد بن ابی عمران موسی بن عیسیٰ اور امام ابو زکریا یحییٰ بن محمدکے پاس مزید ابتدائی تعلیم میں پختگی حاصل کرنے ساتھ ساتھ پورے قرآن مجید کا حفظ کرلیا ۔
ابتدائی تعلیم : امام الطحاوی کے والدین ، دونوں علم وادب سے بے انتہاء شغف رکھتے تھے ۔ اس طور پر کہ آپ کے والد ادب اور شاعری میں بلند مقام رکھتے تھے ، اور آپ کی والدہ جو کہ امام المزنی کی بہن ، فقیہۃ اور عالمہ تھی ، اس وجہ سے امام الطحاوی کی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے علمی گھرانے سے ہی ہوچکی تھی ۔آپ اسی کم سنی کی عمر میں ابو جعفر احمد بن ابی عمران موسی بن عیسیٰ اور امام ابو زکریا یحییٰ بن محمدکے پاس مزید ابتدائی تعلیم میں پختگی حاصل کرنے ساتھ ساتھ پورے قرآن مجید کا حفظ کرلیا ۔
رحلہ اور طلب علم :
جب امام الطحاوی ؒ سن فہم و بلوغت کو پہونچے ، تو طلب علم کے لئے مصر - (جو کہ اس وقت علوم دینیہ کا مرکز وگہوارہ اور علماؤں کا مجمع تھا) - کی طرف رخت سفر باندھ کر منتقل ہوگئے ۔ اوروہاں کےمختلف شہروں میں مقیم علماء ، اور باہر سے تشریف لانے والے علماء بارعین سے اسفادہ کیے ۔ بالخصوص اپنے ماموں اسماعیل بن یحییٰ المزنی - ( جو کہ امام شافعی کے ساتھیوں میں سب سے زیادہ فقیہ تھے ) - کے پاس علم حاصل کرنےلگے ۔یہاں تک کہ آپ بالغ نظرعالم بن گئے ۔ اسی طرح آپ سن دوسواٹسٹھ /268ھ میں مختلف اسلامی علاقوں جیسے شام ، بیت المقدس ،عسقلان غزہ وغیرہ میں مسلسل دو سال کی طویل سفر کر کے اجلہء علماء کے علمی سرمایہ سے مستفید ہوتے رہے بالخصوص شام میں قاضی القضاۃ ابو حازم سے فقہ اور حدیث میں پختگی حاصل کی ۔ اس طرح امام الطحاوی کی مسلسل جدو جہد کی وجہ سے ، خصوصا آپ کی طبیعت کی روانی اور ذہانت و فطانت کی وجہ آپ کو مسائل کی تحقیق و تدقیق میں ایک ملکہ ذوق پیدا ہوگیا ۔
شافعیت سے حنفیت :
امام الطحاوی شافعی مسلک کے تھے ،لیکن علوم دینیہ میں مہارت کے بعد مسلک حنفیت کوترجیح دیتے ۔اس سلسلہ میں کئ ذمہ دار علماؤں نے بھی افسانہ طرازیاں کر کے بے سروپاباتیں کہہ ڈالیں ، مگر انصاف و تحقیق کے پلڑے کو سنبھال کر رکھیں تو بات وہی درست ہے جو انہوں نے خود بیان فرمائ ہے جو محمد بن احمد شروطی ؒ کی زبانی سے خود امام الطحاوی نے واضح کیا ہے وہ یہ ھیکہ " میں نے ماموں سے جب فقہ حاصل کرنا شروع کی تو کئ گوشوں میں تشنگی رہ جاتی اور سوال پر ناراض ہوتے اور تشنگی کا ازالہ مزنی نہ کر سکتے ۔ پھر انھوں نے علامہ مذنی کو پایا کہ جن سوالالت کا جواب وہ فقہ شافعی رحمہ اللہ سے نہ دے سکتے تو فقہ حنفی کا مطالعہ کر کے اس کا جواب کبھی تو امام شافعی کے خلاف اور کبھی قریب قریب دیتے ۔ چنا نچہ اس راز کو معلوم کرنے کے بعد انہوں نے براہ راست فقہ حنفی کا مطالعہ شروع کیا اور اس کے ماہرین سے استفادہ کیا تو ان کو گوہر مراد ہاتھ آگیا اسی وجہ سے دلائل کی روشنی میں مسلک شافعی کو ترک کر کے حنفیت کو اختیارکر لیا ۔
اساتذہ :
امام الطحاوی ؒ نے بہت سے شیوخ و اساتذہ سے استفادہ کیا ۔ جن کی تعداد تین سو /300سے زائد ہیں ۔ جیسا کہ آپ کے اساتذہ اور شیوخ کے تعلق سے کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں ۔لیکن ان میں سے علوم کے خاص چشمے کے اسماء جن سے آپ نے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔
اسماعیل بن یحییٰ مزنی مصری المتوفیٰ264ھ
ابوجعفر احمد بن ابی عمران البغدادی المتوفیٰ 280ھ
علامہ محدث ابوبکرہ بکار بن قتیبہ قاضی القضاۃبمصرالمتوفیٰ 270
قاضی القضاۃ ابو حازم عبد الحمید بن عبد العزیز البصری الشامی المتوفیٰ292ھ
ابو عبید علی بن الحسین بغدادی شافعیالمتوفیٰ319
ابو عبد الرحمن ااحمد بن شعیب النسائیالمتوفیٰ303ھ
شیخ الاسلام ابو موسی یونس بن عبد الاعلی المصری المتوفیٰ264ھ
ابو محمد الربیع بن سلیمان المرادی المصری المتوفیٰ 270ھ
ابو زرعہ عبد الرحمان بن عمرو الدمشقی المتوفیٰ281ھ
ابو اسحاق ابراہیم بن ابی داؤد الکوفی المتوفیٰ270
العلامہ ہارون بن سعید الایلی
العلامہ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم
الشیخ بحر بن نضر الخولانی
العلامہ عیسیٰ بن مثرود
العلامہ عبد الغنی بن رفاعہ
یونس بن عبد الاعلیٰ الصدفی
سلیمان بن شعیب الکیسانی
محمد بن سلامہ
ابراہیم بن منقذ
مقداد بن داؤد الرعینی
محمد بن عقیل الفریانی
یزید بن سنان البصری
احمد بن عبد اللہ البرقی وغیرہ وغیرہ
آپ کے زمانہ کے محدثین کرام:
1/ امام احمد بن حنبل ؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرچھ/6 سال تھی
2/ امام محمد بن اسماعیل البخاریؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرسترہ/17 سال تھی
3/ امام مسلم بن الحجاجؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرچوبیس /24 سال تھی
4/ محمد بن یزید ابن ماجہ ؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرچوتیس /34 سال تھی
5/ سلیمان بن اشعث ابوداؤدؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرسینتس/37 سال تھی
6/محمد بن عیسیٰ الترمذی ؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرچالیس/40 سال تھی
7/ احمد بن شعیب النسائی ؒ کی وفات کے وقت آپ ؒ کی عمرچونسٹھ/64 سال تھی
تلامذہ :
1)۔احمد بن ابراہیم بن حماد۔
2)۔احمد بن محمد بن منصور الانصاری الدامغانی۔
3)۔عبدالرحمن بن احمد بن یونس المورح۔
4)۔سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی ابو القاسم صاحب المعاجم۔
5)۔عبداللہ بن عدی بن عبداللہ الجرجانی ابو احمد صاحب کتاب الکامل فی الجرح والتعدیل،علی بن احمدالطحاوی۔
6)۔عبیداللہ بن علی الدایودی ابوالقاسم شیخ اہل الظاہر فی عصرہ، محمد بن عبد اللہ بن احمد بن زیر ابو سلیمان الحافظ۔
7)۔محمد بن جعفر بن الحسین البغدادی المعروف بغندر الحافظ المفید تصنیفات :
تصنیفات :۔
1) ۔اختلاف العلماء ۔
2) ۔ بیان السنۃ والجماعۃ فی العقیدۃ۔
3)۔حکم اراضی مکۃ المکرمۃ۔
4)۔شرح الجا مع الصغیر و الکبیرللشیا نی فی الفروع۔
5)۔الفرائض ۔
6)۔ کتاب التاریخ۔
7)۔عقود المرجان فی منا قب ابی حنیفۃ النعمان ۔
8)۔قسمۃالفئ و الغنائم۔
9)۔کتاب التسویۃ بین حد ثنا واخبرنا۔
10)۔الشروط الکبیر۔
11) ۔الشروط الصغیعر۔
12)۔المختصر فی الفروع۔
13)۔مشکل الاثار۔
14) ۔المحا ضرات والسجلات۔
15)۔شرح معانی الاثار۔
16)۔اختلاف الروایات علی مذہب الکوفین ۔
17)۔نقد المدلسین علی الکرابیسی۔